Alfia alima

Add To collaction

محبت کی دیوانگی

محبت کی دیوانگی قسط نمبر 7

یار یہ سب کیا کر رہا ہے تو ۔۔۔(وہ فیروز کے گھر پر تھا جہاں سعد بھی موجود تھا۔)

کیا؟(وہ انجان بنتے ہوئے بولا)

تجھے اچھے سے پتا ہے میں کس بارے میں بات کررہا ہوں ۔۔۔۔(فیروز نے تپے ہوئے انداز میں کہا ) تجھے معلوم بھی ہے وہ علاقہ کتنا خطرناک ہے ۔۔۔ کوئی بھی کبھی بھی گھوس جائے ،ان کے ساتھ کچھ غلط ہوجائے کون ضمیدار ہوگا اس کا ۔ (فیروز غصے میں تھا کہ اس کا دوست اس حد تک جاسکتا ہے۔)

ویسے فیروز ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ ایسا بھی کیا کردیا ہے اس نے ۔جو کچھ بھی ہوا وہ ایک غلط فہمی تھی یہ تو بھی جانتا ہے ۔ تیری بے عزتی ہوئی تو لے اپنا بدلہ لیکن کسی کی جان تو داو پر نہ لگا ۔۔۔۔۔(سعد بھی بول پڑا جو کب سے خاموش تھا)

(ان دونوں کی باتیں وہ خاموشی سے سنتا رہا ، دل میں ایک خوف پیدا کردیا تھا ان کی باتوں نے کہ کہیں اس کی وجہ سے تصبیہا کہ ساتھ کچھ غلط ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ وہ فورن وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصبیہا کبھی اس گندے گھر کو دیکھتی تو کبھی خود کو ۔ اس کی عادت تھی کہ اسے گندی جگہ پر بے چینی ہوتی تھی جب تک اسے صاف نہیں کرلے اسے سکون نہیں آتا تھا ۔ اپنی عادت سے مجبور ہوکر وہ آگے بڑھی جالے کو ہاتھ سے ہٹاتے ہٹاتے وہ کمرے میں گئی تو وہ ایک اسٹور روم تھا ۔وہاں کہ جالے ہٹاکر ادھر ادھر دیکھا ایک لکڑی کا اسٹول ،جھاڑو وغیرہ مل گئی ۔اس نے منہ پر اپنا ڈوپٹہ باندھا اور گھر کی صفائی میں لگ گئی ۔ صفائی کرتے کرتے اسے پورا دن گزر گیا مگر موصب کا کچھ پتا نہیں تھا ۔ کمرا ،کچن ،باتھ روم ،صحن ،اسٹور کی صفائی کرتے اس حالت بری ہوگئی ۔ صفائی سے فارغ ہوکر وہ فریش ہونے چلی گئی۔ نہا کر جب وہ آئی تو اسے شدید بھوک لگ رہی تھی مگر وہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا ،وہ صدیوں سے بند گھر میں کھانے کو کہا سے ملے گا ۔۔ تصبیہا صوفے پربیٹھ گئی اور اپنے بیگ سے قران پاک نکالا اور صورۃ بقرا کی پڑھنے لگی ۔ کیونکہ جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی اسے ایک اجیب سا ڈر محسوس ہورہا تھا ۔ اس لیے اس نے صورۃ بقرا پڑھنی شروع کردی ،کیونکہ ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں صورۃ بقرا پڑھی جاتی ہے شیطان وہاں سے چلاجاتا ہے ۔ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موصب گھر آیا تو گھر کا نقشہ دیکھ کر حیران وہ گیا کہ یہ وہی گھر ہے جس میں وہ صبح آیا تھا ۔ وہ کھنڈر ان گھر لگرہا تھا وہ تصبیہا کو سرائے بغیر نہ رہ سکا ۔اس کا خیال اتے ہی موصب آگے بڑھا تو وہ صوفے پر ہی بیٹھے بیٹھے سوگئی تھی ۔ دوپٹہ سر سے لپٹا ہوا تھا چھوٹا سہ قرآن اس نے سینے سے لگایا ہوا تھا ۔ )

یہ یہاں سورہی ہے اور وہ لوگ مجھے اتنی باتیں سنارہے تھے ہنہہ۔۔۔۔(وہ بڑتا ہوا کمرے کی طرف چل دیا ۔ کمرے کا دروازہ جان بوجھ کر زور سے بند کیا ۔آواز اتنی تیز تھی کہ تصبیہا ہڑبڑا کر اٹھ گئی ۔ پہلے تو وہ سمجھ نہیں پائی کہ ہوا کیا ہے پھر ایک خیال آیا کہ شاید موصب آیا ہو۔ وہ اٹھی اور کمرے کا دروازہ نوک کیا مگر کوئی جواب نہیں آیا ۔اس نے پھر نوک کیا تو تھوڑی دیر کے بعد اس نے دروازہ کھولا ۔)

کیا ہوا ہے ؟ (وہ تصبیہا کو گھورتے ہوئے بولا)

تمہیں شرم نہیں آتی مجھے یہاں آکیلے چھوڑ کر کہا چلے گئے تھے ۔ (اس کا بھوک سے پہلے ہی برا حال تھا اوپر سے اس کا ایسا راویہ ،تصبیہا کا تو دماغ ہی گھوم گیا۔ )

نہیں آتی شرم پھر ؟ (وہ بھی بنا اسر لیے بولا)

یہ مت بھولو کہ تم مجھے یہاں لے کر آئے ہو میں اپنی مرضی سے نہیں آئی تو اب یہ تمہاری زمیداری ہے کہ میری ضرورت کا خیال رکھو ۔ بھوک سے میرا برا حال ہورہا ہے اور تم ۔۔۔۔(کہتے کہتے اس کی آنکھیں نم ہوگئی تو وہ وہاں نہیں روکی )

(موصب نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے موصب کو دکھ ہوا اس نے سعد کو کال کی۔)

ہیلو سعد ۔۔یار ایک کام کر ۔

ہاں بول کیا ہوا ۔۔۔

یار مجھے کھانا اوڈر کرنا تھا مگر یہاں تو اس وقت کوئی نہیں آئے گا ۔۔۔باقی تو تو سنجھ گیا ہوگا ۔۔۔

ابھی تو تو کھانا کھا کر گیا تھا یہاں سے ؟(اس نے حیرت سے پوچھا )

مجھے پھر بھوک لگ رہی ہے کوئی مسئلہ ۔۔۔(موصب تپے ہوئے لہجے میں بولا)

اچھا اچھا لا رہا ہو۔۔۔۔(اس نے کہہ کر کال کٹ کی ۔)

تھوڑی دیر بعد سعد دروازے پر کھڑا گیٹ نوک کررہا تھا ۔تصبیہا نے سنا تو وہ گیٹ کھولنے جانے لگی ۔ تو دروازے کی آواز سن کر موصب کمرے سے باہر آیا اور تصبیہاسے بولا ۔

رک جاو ۔۔(اس کی آواز سن کر وہ روک گئی ۔موسب نے جا کر دروازہ کھولا ےتو باہر سعد تھا ۔موصب کے ساتھ سعد بھی اندر آگیا ۔جیسے ہی اندر آیا تو گھر کی حالت دیکھ کر شوکڈ رہ گیا ۔)

یہ کس نے کیا ؟ (وہ حیرانی سے موصب سے بولا )

کیا ؟(موصب ناسمجھی سے بولا)

یہ گھر کی حالت ۔۔۔(وہ ادھر ادھر دیکھتا ہوا بولا )

موصب کچھ دیتا کہ سعد کی نظر تصبیہا پر پڑی تو اس نے سلام کیا ۔ تصبیہا نے بھی اس کے سلام کا جواب دیا ۔تو وہ بول)

بھابی یہ سب آپ نے کیا ہے؟ (وہ جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا )

بھابی؟؟؟؟ (تصبیہا نے اسے ایسے دیکھا جیسے پتا نہیں اس نے کیا کہہ دیا ہو)

(سعد بیچارا پزل ہوگیا کہ کیا غلط کہہ گیا ۔موصب بھی اسے دیکھ رہا تھا )

کچھ غلط کہہ دیا میں نے ؟ (سعد نے پوچھا تو وہ بولی )

خبردار جو مجھے بھابی کہا تو ۔۔۔۔ تصبیہا نام ہے میرا ۔آئیندہ نہیں سنو میں یہ لفظ ۔ (اس نے غصۓ سے کہا اور آخر میں موصب کو گھور کر چلی گئی )

یہ تیرا غصہ مجھ پر اترا ہے نا ؟(سعد نے موصب گھورتے ہوئے پوچھا )

(موصب اسے دیکھ کر مسکرانے لگا تو اس نے آگے بڑھ کر ایک مکا اسے مارا )

میں نے کیا کہا ہے؟ (موصب کندھے کو صلاتے ہوئے بولا )

آپ کہا کچھ کرتے ہیں آپ تو جلیبی کی طرح معصوم ہیں ۔۔۔(سعد تپے ہوئے لہجے میں بولا )

ایک بات بولوں (سعد اس کے کان میں گھوستے ہوئے بولا ) یہ ہری مرچ بہت تیز ہے ،بتارہا ہوں میں بچ کہ رہ۔۔۔۔۔

آج تک ایسا کوئی نہیں پیدا ہوا جس سے موصب خان کو ڈرنا پڑے ۔(موصب نے مغرور لہجے میں کہا)

تیرا اوور کونفیدینس ہی تجھے مروائے گا (سعد نے انگلی دیکھاتے ہوئے کہا اور باہر نکل گیا)

(موصب سر جھٹک کر کچن میں آیا جہاں تصبیہا بیٹھی پانی پی رہی تھی ۔۔۔۔۔موصب نے اسے دیکھا اور کھانے کا شوپر اس کے برابر میں رکھتے ہوئے بولا )

یہ کھانا کھالو۔۔۔۔۔(اس کی آآواز مہیں ایک غرور تھا جیسے اس نے تصبیہا پر بہت بڑا احسان کیا ہو)

(تسبیہا نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر شوپر پر ڈالی پھر شوپر اٹھا لیا ۔بھوک جو بہت زور کی لگی تھی ایسے میں کیا اسے کہتی ۔ موصب جاتے جاتے مڑا اور بولا)

کل صبح ریڈی رہنا تم کل سے میرے ساتھ ہوسپیٹل چلو گی ۔۔۔(اس نے ایک نیا حکم سنایا تو تصبیہا نے چونک کر اسے دیکھا پھر بولی )

میرا کیا کام وہاں ؟ (تصبیہا کی سمجھ نہیں ائی اس کی یہ بات کہ بھلا وہ اسے کیوں اپنے ساتھ لے کر جارہا ہے)

جو کہا ہے وہ کرو اپنا دماغ مت چلاو۔۔۔(وہ ایک دم غصے سے بولا )

ایسے کیسے چلی جاوں ؟ پہلے مجھے وجہ بتاو؟ (وہ کہا اس کے غصۓ سے ڈرنے والی ۔وہ بھی ڈھیٹائی سے بولی)

ہوسپٹل کی جمادارنی چلی گئی ہے ایسی لیے تمہیں لے کرجارہا ہوں ۔بس اب خوش ۔۔۔(اس نے تصبیہا کا ہاتھ پکڑ کر کھنچا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا اور پھر اس کا ہاتھ جھٹک کر وہاں سے چلا گیا )

(تصبیہا اپنا ہاتھ صہلاتے ہوئے بولی) جنگلی ،وحشی ۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح تصبیہا کی آنکھ کھلی تو نماز کا وقت ہورہا تھا ۔وہ اٹھی اور وضو کرکے نماز پڑھنے لگی ۔نماز پڑھ کر وہ قرآن کی تلاوت کرنے لگی ۔ وہ تلاوت کررہی تھی جب موصب نماز پڑھ کر مسجد سے آیا تو اس کی آواز سن کر وہیں رکھ گیا ۔تصبیہا کی پیٹھ تھی اس کی طرف اس وجہ سے وہ موصب کو دیکھ نہ سکی۔ وہ تلاوت بہت پیاری آواز میں کررہی تھی ۔

تلاوت کے ساتھ ساتھ وہ اس آیت کا توجمہ بھی پڑھ رہی تھی ۔ جب موصب اندر آیا تو وہ سورۃ نور کی آیت نمبر 31 کی تلاوت کررہی تھی۔
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔

اس نے تلاوت رک کر قرآن رکھا تو موصب بے چین ہوگیا وہ چاہتا تھا کہ وہ پڑھتی رہے اور وہ سنتا رہے کیونکہ وہ پڑھ ہی اتنا اچھا رہی تھی ۔وہ جائے نماز طے کرکے مڑی تو موصب کو سامنے پاکر چونک گئی ۔کہ وہ کب باہر گیا ۔ مگر اس کو قمیض شلوار میں دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ وہ نماز پڑھ کر آیا ہے۔ وہ بنا کچھ کہے اسٹور روم میں چلی گئی۔ موصب اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ پھر وہ بھی تیار ہونے کمرے میں چلا گیا۔ وہ تیار ہوکر باہر آیا تو اپنے اسی حلیے میں تھا بلیک جینس اس پر سرمائی ٹی شرٹ اور اس پر نیلی رنگ کی شرٹ پہنے ،گلے میں لوکٹ ،سن گلاسیسز اور لیب کوٹ ہاتھ میں لیے ۔
وہ باہر آیا تو تصبیہا وہیں کھری تھی وہ عبایا پہنے ،بوٹل گرین کلر کا اسکارف اوڑہے ۔موصب نے اسے دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔ باہر نکل کر پیچھے دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا ۔)

یہ کہا رہ گئی ۔۔۔۔(وہ بڑبڑاتے ہوئے اندر آیا تو وہ صوفے پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر موصب کو غصہ آگیا ۔۔)

تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ (اس نے غصے سے ہی پوچھا )

تو پھر کہاں ہونا چاہیے تھا مجھے ؟ (اس نے موصب کو دیکھ کر آبرو اچکا کر پوچھا )

ہمیں دیر ہورہی ہے اور تم یہاں آرام سے بیٹھی ہو ۔۔۔۔۔۔۔

تم نے مجھے بولا چلنے کو۔۔۔۔(اس نے موصب سے ہی سوال کرڈالا)

کیا مطلب ۔۔۔(وہ سمجھا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہی ہے)

بہھی تم خود ہی باہر چلے گئے تم نے مجھے بولا کہ چلو ۔۔۔۔(اس نے آرام سے اپنا بولا)
اس کی بات سن کر موصب کا دماغ گھوم گیا ۔وہ تپے ہوئے لہجے میں بولا )

تصبیہا میڈم آپ چلنا پسند کریں گی ۔ہمیں دیر ہورہی ہے ۔۔۔(ایک ایک لفظ اس نے چبا کر بولا ،اس کے لہجے سے غصہ صاف واضع تھا ۔)

تصبیہا کو ہنسی آگئی مگر وہ چھوپا گئی ۔۔۔۔اور کھڑی ہوگئی اور اس کے آگے چلنے لگی۔ گاڑی میں بیٹھ موصب نے دروازہ اتنی زور سے بند کیا کہ چونک گئی۔ مگر بولی کچھ نہیں ۔ کافی دیر بعد وہ بولا)

وہاں کسی کو یہ پتا نہیں چلنا چاہیے کہ ہمارا کیا رشتہ ہے۔۔۔۔(موصب نے اس کی طرف منہ کرکہ بولا )

ہمارا رشتہ ہے ؟(اس نے ترکی با ترکی پوچھا تو وہ خاموش ہوگیا ۔پھر بولا )

تم وہاں میری اسیسٹنٹ ہوگی ۔

کیا ؟؟؟مگر مجھے تو میڈیکل کا ایم بھی نہیں آتا ۔ میں وہاں کیا کروں گی؟ (اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے گی وہاں+
اپنے چھوٹے سے دماغ پر زور نہیں ڈالو ۔سب سمجھ آجائے گا بس جو کہا ہے وہ کرو۔(وہ سکون سے بولا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments